اسلام آباد:بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ آٹو سیکٹر میں مسابقت کو فروغ دینے کے لیے گاڑیوں کی درآمد پر عائد تجارتی رکاوٹیں ختم کی جائیں، خصوصاً پرانی گاڑیوں کی درآمد کو آسان بنایا جائے۔ ممکنہ طور پر یہ تبدیلی آئندہ مالی سال سے نافذ کی جا سکتی ہے، جس سے درآمدی گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا امکان ہے، تاہم مقامی کار ساز ادارے اس پیش رفت پر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی تازہ کنٹری رپورٹ میں پاکستان کے آٹو سیکٹر کو غیر مسابقتی قرار دیا گیا ہے، جہاں مقامی صنعت کو غیر معمولی تحفظ حاصل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اب تک صرف تین سال پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت تھی، جسے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ درآمدی گاڑیوں پر عائد ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کو 2030 تک مرحلہ وار ختم کیا جائے گا۔
موجودہ پانچ ٹیرف سلیب کم کر کے زیادہ سے زیادہ کسٹم ڈیوٹی 15 فیصد رکھنے کا منصوبہ ہے۔وفاقی حکومت نئی نیشنل ٹیرف پالیسی اور آٹو پالیسی 2026 پر مشاورت کر رہی ہے، جس کا اطلاق یکم جولائی 2025 سے متوقع ہے۔
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کے مطابق اگر پانچ سال پرانی گاڑی درآمد کرنے کی اجازت مل گئی اور ڈیوٹی کم ہوئی تو قیمت میں نمایاں کمی ممکن ہے۔ تین سال پرانی جاپانی گاڑی اگر پانچ ہزار ڈالر میں ملتی ہے، تو پانچ سال پرانی وہی گاڑی ساڑھے ڈھائی ہزار ڈالر میں دستیاب ہو سکتی ہے۔ صرف گاڑی کی قیمت میں پانچ سے سات لاکھ روپے تک فرق آ سکتا ہے۔ اگر ڈیوٹی بھی کم ہو جائے تو مزید کمی آئے گی۔
پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) نے اس پالیسی کو ملکی صنعت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔پاما کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان کے مطابق ملک میں 30 لاکھ سے زائد افراد کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔ اگر سستی درآمدی گاڑیاں آنے لگیں تو مقامی مینوفیکچرنگ متاثر ہو گی، فیکٹریاں بند ہو سکتی ہیں اور حکومت کو اربوں روپے کے ریونیو سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایک گاڑی پر اوسطاً لاکھوں روپے کا ٹیکس وصول کرتی ہے، جو کہ بجٹ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
آٹو انڈسٹری کے ماہر ین کے مطابق اس پالیسی سے وقتی طور پر تو قیمتوں میں کمی آئے گی، لیکن اس کے نتیجے میں درآمدات بڑھنے سے تجارتی خسارہ بھی بڑھ سکتا ہے۔ “پاکستان کی آٹو انڈسٹری عالمی سطح پر مسابقت کے قابل نہیں۔ اگر لوکل پارٹس کی جگہ سستے درآمدی پارٹس کا استعمال بڑھا تو لوکل انڈسٹری کمزور ہو جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی سے بنیادی فائدہ صرف وہ طبقہ اٹھا سکے گا جو پہلے ہی درآمدی گاڑیاں خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے۔
آئی ایم ایف کی تجاویز پر عملدرآمد کی صورت میں پاکستان میں درآمدی گاڑیاں سستی ہونے کا امکان ضرور ہے، لیکن ماہرین اور مقامی صنعت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ یہ فائدہ محدود طبقے تک محدود رہے گا، جبکہ مقامی آٹو انڈسٹری کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔فیصلہ اب حکومت کے ہاتھ میں ہے کہ وہ صارفین کو ریلیف دے یا مقامی صنعت کا تحفظ کرے یا کوئی درمیانی راستہ نکالے۔