10 دسمبر کو افغان کابینہ کے سینیئر رُکن اور اہم طالبان رہنما خلیل الرحمان حقانی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک خودکش حملے میں جاں بحق ہوئے۔
حکام کے مطابق وزارت مہاجرین میں ہونے والے دھماکے میں وزیر خلیل الرحمٰن حقانی اپنے کم از کم دو ساتھیوں سمیت مارے گئے۔
رپورٹ کے مطابق خلیل الرحمان حقانی پر حملے کی ذمہ داری عالمی شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کے مقامی شاخ داعش خراسان نے قبول کی۔
خلیل حقانی افغان طالبان کے نائب سربراہ اور موجودہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے چچا بھی تھے۔ وہ حقانی خاندان کے سربراہ اور اہم رہنما تھے جن کی گرفتاری میں مدد دینے پر امریکی حکومت نے 50 لاکھ امریکی ڈالرز کے انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔
خلیل حقانی افغانستان میں اب تک داعش خراسان کے حملوں میں مارے جانے والے طالبان رہنماؤں میں سب سے اعلیٰ عہدیدار ہیں۔
وزیراعظم ہاؤس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کے بعد جب وہ اپنے دفتر لوٹ رہے تھے تو اس دوران کابل میں واقع وزارتِ مہاجرین کے کمپلیکس میں خودکش حملہ آور نے اُس انہیں نشانہ بنایا۔
افغانستان سے لائے گئے امریکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت ایک بار پھر منظرِ عام
رپورٹ کے مطابق خلیل حقانی گاڑی سے اُتر کر ملاقات کے منتظر چند افراد سے مل رہے تھے جب سائل کی شکل میں قریب کھڑے مبینہ خودکش حملہ آور نے انھیں پکارا اور اس کے بعد بظاہر امداد کے لیے ایک درخواست پیش کی۔ اسی درخواست پر دستخط کے دوران زوردار دھماکہ ہوگیا۔
طالبان حکام کی جانب سے فوٹیجز بھی سامنے لائی گئیں جس میں مبینہ خودکش حملہ آور کی حملے سے قبل کی سرگرمیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مذکورہ فوٹیجز سے اندازہ ہوتا ہے کہ مبینہ خودکش حملہ آور منصوبہ بندی کے تحت ظہر کی نماز کے دوران خلیل حقانی کو نشانہ بنانا چاہتا تھا تاہم ظہر کی نماز میں انھیں موجود نہ پا کر وہ وزارت مہاجرین کے داخلی دروازے پر موجود سائلین کے ساتھ اُن کے انتظار میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں مبینہ حملہ آور کی عمر لگ بھگ 30 سال کے قریب ہے۔ فوٹیج میں دیکھا گیا کہ مبینہ حملہ آور فریکچر کی وجہ سے ہاتھ میں ٹھوس پلستر پہنے ہوئے ہے اور پلستر میں موجود سٹیل راڈز کی بابت بتاتے ہوئے وہ سیکورٹی پر مامور محافظین کے سامنے موجود میٹل ڈیٹیکٹر سکینر سے گزر جاتا ہے۔ مسجد کے اندر سے موصول ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق وہ نماز کے وقت اول صف میں نظر آتا ہے مگر اس کے بعد وہ خلیل حقانی کو وہاں موجود نہ پا کر باہر آ کر ان کا انتظار کرتا ہے۔
افغانستان کا ٹی وی کے حوالے سے بڑا فیصلہ
افغان طالبان کے نائب وزیراعظم برائے اقتصادی امور مولوی عبدالغنی بردار کے قریبی ساتھی عبداللہ عزام کے مطابق وقوعہ کے روز خلیل حقانی اقتصادی کمیشن کے اجلاس میں شریک تھے جو مولوی برادر کی سربراہی میں وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس کی تصاویر وزیراعظم ہاؤس کے رسمی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جاری کی گئی ہیں جن میں خلیل حقانی اجلاس کے دوران مولوی برادر کے پہلو میں بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔
عزام کے مطابق اجلاس کے بعد خلیل حقانی نے وہیں پر نمازِ ظہر ادا کی اپنی وزارت کی طرف نکل گئے جہاں مبینہ خودکش حملہ آور ان کا اتظار کر رہا تھا۔ افغان حکام کے مطابق اس حملے میں خلیل حقانی سمیت اُن کے دو محافظین اور قندھار صوبے سے آیا ایک افغان شہری بھی مارا گیا۔
خلیل حقانی کی نماز جنازہ افغان صوبہ پکتیا میں اُن کے آبائی گاؤں میں جمعرات کے دوپہر ایک بجے ادا کی گئی جس کی امات سراج الدین حقانی نے کی، جنازے میں طالبان کے نائب وزیراعظم مولوی عبدالکبیر اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سمیت کابل سے دیگر اہم طالبان عہدیداروں نے شرکت کی۔
Source link