برطانیہ کے متوقع وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر کون ہیں؟

برطانیہ کے متوقع وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر کون ہیں؟

برطانیہ کے متوقع وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر کون ہیں؟

کیئر اسٹارمر نے 2020 میں لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی تب پارٹی کو 85 سال میں بدترین انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے پارٹی کو دوبارہ انتخابی اکھاڑے میں حریفوں کو پچھاڑنے کے قابل بنانے کو اپنا مشن بنالیا۔

صرف چار سال کے بعد یعنی کنزرویٹیو پارٹی کے 14 سالہ دورِ اقتدار کے بعد اب کیئر اسٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی برطانیہ میں حکمرانی کے لیے تیار ہے۔ ایگزٹ پولز سے یہ سوال نہیں اٹھتا کہ کیا لیبر پارٹی حکومت قائم کرنے کے لیے درکار اکثریت حاصل کرسکے گی یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ کتنے فرق کے ساتھ دوسروں سے آگے رہے گی۔

61 سالہ اسٹارمر کو اس بات پر تنقید کا سامنا رہا ہے کہ اُن کی شخصیت زیادہ پُرکشش اور سِحر آگیں نہیں تاہم لیبر پارٹی کو سیاسی بساط پر دوبارہ بہتر چالیں چلنے کے لیے تیار کرنے کی ان کی مہارت کا لوہا سبھی مانتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار اور ٹی وی چینلز پر تبصروں کے حوالے سے اپنی ذات میں ادارہ سمجھ جانے والے پروفیسر سر جان کرٹس نے الیکشن سے دو دن قبل برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی کے رشی سوناک وزیر اعظم رہیں اِس سے بھی زیادہ حیرت انگیز کچھ رونما ہونے والا ہے۔ برطانیہ میں عام آدمی کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت نے لیبر پارٹی کو ایک بار پھر ایوانِ اقتدار تک پہنچایا ہے۔ لوگ کنزرویٹو پارٹی سے بیزار سے ہوچکے ہیں۔

سر اسٹارمر سابق وکیل ہیں جنہیں کرمنل مقدمات میں انصاف کا بول بالا کرنے کے حوالے سے غیر معمولی کردار ادا کرنے پر نائٹ ہُڈ دیا گیا ہے۔ برطانوی سیاست ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران خاصی اُتھل پُتھل کا شکار رہی ہے۔ اس میں لِز ٹروس کا وزیر اعظم کی حیثیت سے صرف پچاس دن کا دور بھی شامل ہے۔ سیاسی انتشار سے جماعتیں بھی پریشان تھیں اور عوام بھی۔

کیئر اسٹارمر لندن سے کچھ دور سَرے کے علاقے کے ایک چھوٹے قصبے میں بڑے ہوئے۔ ان کی والدہ نیشنل ہیلتھ سروس کی ملازم تھیں۔ والد اوزار تیار کرتے تھے۔ یہ بات کائر اسٹارمر نے انتخابی مہم کے دوران اِتنی بار کہی کہ اِس کی میمز بھی بنائی گئیں۔ وہ لوگوں کو بتانا چاہتے تھے کہ وہ بھی اُنہی میں سے ہیں اور اُن کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہیں۔

اسٹارمر کی والدہ زندگی بھر آرتھرائٹس کی مریضہ رہیں اور 2015 میں اسٹارمر کے برطانوی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کے چند ہفتے بعد انتقال کرگئی تھیں۔ اُن کے والد کا انتقال 2018 میں ہوا۔ والد سے اسٹارمر کے تعلقات تھوڑے کشیدہ رہے۔ وہ کہتے ہیں میں کبھی اپنے والد سے کُھل کر نہ کہہ سکا کہ میں آپ سے پیار کرتا ہوں، آپ کا احترام کرتا ہوں اور اس پر مجھے آج بھی شدید دُکھ محسوس ہوتا ہے۔

اسٹارمر اپنی فیملی میں یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم پانے والے پہلے فرد تھے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بائیں بازو کا جریدہ سوشلسٹ آلٹرنیٹِوز بھی چلایا۔ اس کے بعد وہ وکالت کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ 2008 میں وہ پبلک پراسیکیوشن کے سربراہ کے منصب تک پہنچے۔ اس منصب کے تحت انہوں نے برطانوی حکومت کی کراؤن پراسیکیوشن سروس چلائی۔ 2014 میں اُنہیں نائٹ ہُڈ سے نوازا گیا۔ اِس کے اگلے ہی سال انہوں نے سیاست کے میدان میں اپنے آپ کو آزمانے کی ابتدا کی۔

سنگین جرائم کے مقدمات تو انہوں نے خوب جیتے ہیں تاہم نسبتاً بیزار کن سیاست دان کے امیج سے جان چھڑانے میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ جنوری میں برطانیہ کے آئی ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ روایتی سیاست دانوں کی طرح بڑی بڑی باتیں نہیں کرتے لیکن اگر کوئی بورنگ قرار دے رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی جیت ہو رہی ہے۔

لیبر پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے انہوں نے پارٹی کو انتخابی اکھاڑے میں ٹِکے رہنے اور جیتنے کے قابل بنانے پر غیر معمولی توجہ مرکوز کی ہے۔ پارٹی لیڈر کی حیثیت سے انہوں نے چند سخت فیصلے بھی کیے ہیں۔ 2015 سے 2020 کے دوران جرمی کاربن لیبر پارٹی کے سربراہ اور اپوزیشن لیڈر رہے۔ جب انہوں نے لیبر پارٹی میں یہودیت مخالف رجحان سے متعلق رپورٹ میں بیان کردہ حقائق کو کچھ زیادہ قرار دیا تو اسٹارمر نے انہیں معطل کردیا۔ وہ کھل کر کہتے رہے ہیں کہ ملک پہلے، پارٹی بعد میں۔

اسٹارمر نے چند ایسے اعلانات بھی کیے ہیں جو پارٹی میں بہت سوں کے لیے حیران کن رہے ہیں۔ مثلاً انکم ٹیکس میں اضافہ، یونیورسٹیز کی ٹیوشن فیس میں کمی اور عوامی خدمت کے بیشتر اداروں کو قومی تحویل میں لینا وغیرہ۔ گرین انویسٹمنٹ کے حوالے سے پارٹی کے 35 ارب ڈالر سالانہ کے اعلان سے پیچھے ہٹنا بھی اُن کا حیرت انگیز قدم رہا ہے۔

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون کے شعبے سے وابستہ رہنے کے باوجود انہوں نے غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کی ہے۔

اسٹارمر نے حال ہی میں کہا کہ برطانیہ کو بڑے، بے باک منصوبے کی ضرورت ہے تاہم ابتدا چھوٹے اقدامات سے ہونی چاہیے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق وہ ٹیکس چوری پر سخت تر اقدامات چاہتے ہیں۔ زیادہ اساتذہ کی بھرتی ان کی ترجیحات میں شامل ہے اور پولیس میں مقامی افراد کو ترجیحاً بھرتی کرنے کا منصوبہ بھی اُن کی ترجیحات میں شامل ہے۔

برطانیہ کی طرح اس وقت امریکا کی سیاست بھی غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ ایسے میں لوگ یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہون گے کہ کائر اسٹارمر کے وزیر اعظم بننے کی صورت برطانیہ اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت کیا رہے گی۔ اسٹارمر ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرنے اور گھریلو صنعتوں کو مضبوط بنانے کے حوالے سے امریکی صدر بائیڈن کی پالیسیوں کو سراہتے رہے ہیں۔ دی اکنامسٹ نے تو یہاں تک لکھا ہے ک وہ صدر بائیڈن پر کچھ زیادہ ہی متوجہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوئے تو امریکا اور برطانیہ کے تعلقات میں یہ گرم جوشی شاید باقی نہ رہے۔

Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *