بائیڈن کی شکست کا ملبہ مشیروں پر ڈال دیا گیا

بائیڈن کی شکست کا ملبہ مشیروں پر ڈال دیا گیا

بائیڈن کی شکست کا ملبہ مشیروں پر ڈال دیا گیا

امریکی صدر جو بائیڈن کی فیملی نے اُنہیں صدارتی انتخاب کی دوڑ سے الگ نہ ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ سے مباحثے میں شکست کا سارا ملبہ ان کے مشیروں پر ڈال دیا ہے۔

امریکی صدر نے ٹرمپ سے مباحثے میں انتہائی کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد دل گرفتہ ہونے پر کیمپ ڈیوڈ میں اپنی فیملی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔

امریکی میڈیا میں یہ قیاس آرائی گرم ہے کہ صدر بائیڈن شاید انتخابی دوڑ سے الگ ہوجائیں۔ اُن کی عمر اُن کی راہ میں بہت بڑی دیوار بن کر حائل ہوگئی ہے۔ وہ بھولنے کی بیماری میں بھی مبتلا ہیں۔ چلنے پھرنے میں نقاہت محسوس کرتے ہیں اور کبھی کبھی بھرے مجمع میں گم سم دکھائی دیتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں اُنہیں دوبارہ صدر منتخب کرنا عقل کا سودا نہ ہوگا۔

صدر کی فیملی نے واضح کردیا ہے کہ وہ انتخابی دوڑ سے الگ نہیں ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی کہتی ہے کہ ٹرمپ سے مباحثے میں صدر بائیڈن کی خراب کارکردگی کا بنیادی سبب اُن کے مشیروں کا تیاری کے معاملے میں کوتاہی برتنا ہے۔

صدر بائیڈن نے اتوار کا دن کیمپ ڈیوڈ میں فیملی کے ساتھ گزارا۔ اس دوران صدارتی انتخابی مہم کے حوالے سے مشاورت بھی کی گئی اور مختلف آپشنز پر تبادلہ خیالات کے بعد طے کیا گیا کہ صدر بائیڈن ہی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار رہیں گے۔ ٹرمپ سے مباحثے کے بعد سیاسی تجزیہ کاروں، میڈیا اور ووٹرز نے صدر سے کہا ہے کہ اُن کا انتخابی دوڑ سے الگ ہو جانا ہی بہتر ہوگا۔

یاد رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مباحثے کے دوران صدر بائیڈن متعدد مواقع پر بڑبڑاتے ہوئے سنائی دیے۔ اُن میں اعتماد کی واضح کمی دکھائی دی۔ بعض معاملات میں انہوں نے دانستہ یا نادانستہ غلط بیانی کی اور ووٹرز کو قائل کرنے والا اندازِ تخاطب اختیار کرنے میں واضح طور پر ناکام رہے۔

صدر بائیڈن کے لیے انتخابی عطیات جمع کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے جان مارگن کہتے ہیں کہ شاید مباحثے کے لیے اُن کی اوور کوچنگ کی گئی اور اُنہوں نے اوور پریکٹس کی۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کو بڑے اور بنیادی پر اپنی بصیرت سے قوم کو روشناس کونے پر توجہ دینی چاہیے تھی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مباحثے سے قبل اُنہوں نے بھرپور آرام نہیں کیا تھا اس تھکے تھکے دکھائی دیے اور اپنے ووٹرز کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔

فروری تک 36 فیصد ڈیموکریٹ ووٹرز کا خیال تھا کہ صدر بائیڈن کو انتخابی دوڑ میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ اب ایسے ڈیموکریٹ ووٹرز کا تناسب 46 فیصد ہوچکا ہے۔ صدر کی حیثیت سے اُن کی کارکردگی کی حمایت بھی گھٹ رہی ہے۔

Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *