امریکی فضاؤں میں پراسرارپروازیںڈونلڈ ٹرمپ کا بیان وائرل

امریکی فضاؤں میں پراسرارپروازیںڈونلڈ ٹرمپ کا بیان وائرل

ویب ڈیسک: امریکا کی فضاؤں میں پراسرار چیزوں کی پرواز کا انکشاف ہوا ہے جن کو ڈرونز قرار دیا جا رہا ہے، تاہم یہ تصدیق نہیں کی گئی کہ آیا یہ ڈرونز ہیں یا اڑن طشتریاں؟ صورتحال پر عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور انہوں نے فوج سے مداخلت کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اسی دوران نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنے سیاسی حریف سے متعلق ایک میم بھی وائرل ہوگئی ہے۔

امریکی نیوز چینل سی این این کے مطابق اڑنے والی یہ چیزیں ممکنہ طور پر ڈرون ہو سکتے ہیں جو حالیہ ہفتوں کے دوران مغربی ساحل کے قریب بھی دکھائی دیے جو رہائشی علاقوں کے قریب اور حساس مقامات پر بھی پرواز کرتے رہے۔

شعبہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے سیکریٹری الیجندرو مایورکس نے اتوار کو اے بی سی کو بتایا کہ ’میں امریکا کے عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم ان پر کام کر رہے ہیں۔‘

رپورٹس کے مطابق پراسرار ڈرونز کے سامنے آنے کے بعد نیویارک کے سٹیورٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو جمعے اور سنیچر کی رات تقریباً ایک گھنٹے تک بند رکھا گیا۔

نیویارک کی گورنر کیتھی ہوچل نے سنیچر کو کہا کہ ’معاملہ بہت آگے نکل گیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے پچھلے مہینے نیویارک کے ریاستی انٹیلی جنس سینٹر کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ ڈرون نما چیزوں کی تحقیقات کرے اور قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں کے ساتھ اس حوالے سے مل کر کام کرے۔

سینٹ میں اکثریت رکھنے والے رہنما چک سکمر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈی ایچ ایس کو خصوصی ڈیٹیکشن سسٹم نصب کرنے کا کہا ہے جو 360 ڈگری ٹیکنالوجی کا حامل ہو اور ڈرون کا پتہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

انہوں نے اتوار کو اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے گفتگو میں کہا کہ ’اگر آسمان تک پہنچانے والی ٹیکنالوجی موجود ہے تو یقیناً ایسی ٹیکنالوجی بھی موجود ہے جو اس کا پتہ لگا سکے اور اس بات کا بھی تعین کر سکے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘

ایف بی آئی اور محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ “اس وقت اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ڈرون دیکھنے کی اطلاع سے قومی سلامتی کو خطرہ ہے یا عوامی تحفظ کو خطرہ ہے یا غیر ملکی گٹھ جوڑ ہے۔

FBI کو مبینہ طور پر ڈرون دیکھنے سے متعلق 3,000 سے زیادہ تجاویز موصول ہوئی ہیں، جس نے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کو نیو جرسی کے Picatinny Arsenal فوجی اڈے اور ٹرمپ نیشنل گالف کلب بیڈ منسٹر کے لیے عارضی پرواز کی پابندیاں جاری کرنے پر آمادہ کیا۔ جمعہ کی شام نیویارک کے ایک ہوائی اڈے کو بھی مجبوراً بند کرنا پڑا کیونکہ ڈرون کی پراسرار سرگرمی نے فضائی حدود کو بند کر دیا تھا۔

موریس اور نیوجرسی کے حکام نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوج سمیت تمام دستیاب وسائل کو حرکت میں لایا جائے تاکہ نیوجرسی اور ملک کے دوسرے مقامات پر بلااجازت ڈرونز اڑنے کا سلسلہ بند ہو سکے۔

وائٹ ہاؤس کے نیشنل سیکیورٹی کمیونیکیشن ایڈوائزر جان کربی کے مطابق، وفاقی اور ریاستی حکام کو ڈرونز سے متعلق “کوئی بدنیتی پر مبنی سرگرمی” نہیں ملی ہے۔

یاد رہے کہ ڈرون ایک ایسی اصطلاح ہے جو بغیر پائلٹ کے اڑنے والی کسی چیز کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ امریکا میں سات لاکھ 91 ہزار پانچ سو 97 ڈرون ایف اے اے کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، جو تقریباً یکساں طور پر تجارتی اور تفریحی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ وہ فوٹوگرافی، زراعت اور دوسرے صنعی کاموں کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان کا استعمال کرتے ہیں۔

رات کے وقت آسمان پر دکھائی دینے والی چیزوں، جن کے بارے میں وائٹ ہاؤس کی سلامتی کونسل کے مشیر جان کربی کا خیال ہے کہ ان کی ’غلط شناخت‘ کی گئی، تاہم اس کی قطعی شناخت کے حوالے سے اب بھی کنفیوژن پائی جاتی ہے جبکہ درست تعداد کا تعین بھی نہیں ہو سکا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی میم سوشل میڈیا پر وائرل:

دوسری طرف نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈرونز کی افواہوں کا مذاق اڑاتے ہوئے نیو جرسی یا گارڈناسٹیٹ کے سابق گورنر کرس کرسٹی کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون دیکھنے کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔

منتخب صدر نے ہفتے کے روز اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ انسٹاگرام پر AI سے تیار کردہ میم کو پوسٹ کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔ تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ کرسٹی میکڈونلڈز کے برگروں کو کھول رہے ہیں جبکہ پس منظر میں ڈرونز نے انہیں مزید  میکڈانلڈ کے برگر دینے کے لئے پہنچ رہے ہیں۔

نیوجرسی کے سابق گورنر کرسٹی کون ہیں؟

2017 سے ٹرمپ کے ناقد، کرسٹی کی منتخب صدر کے ساتھ عوامی جھگڑوں کی ایک تاریخ ہے، سابق گورنر اکثر ٹرمپ کی دیانتداری اور سیاسی جانکاری کو مسترد کرتے  چلے آئےہیں۔ دونوں پرانے حریف ہیں اور 2024 کے ریپبلکن صدارتی نامزدگی کے حصول کے لیے دونوں ہی بھاگ دوڑ کرتے رہے تھے۔

اپنی پوری مہم کے دوران، ٹرمپ نے کرسٹی کے وزن کا مذاق اڑاتے رہے ہیں۔

Source link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *