آسٹریلیا نے اعلان کیا ہے کہ اس نے غیرملکی طلباء کیلئے ویزا فیس میں ہوشربا اضافہ کردیا ہے اور اب یہ دوگنا سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ اس اقدام کی وجہ غیرملکیوں کی ریکارڈ تعداد میں آمد ہے۔ جس نے پہلے ہی ہاؤسنگ مارکیٹ پر سخت دباؤ ڈال رکھا ہے۔
تازہ اعلان میں بتایا گیا ہے کہ یکم جولائی سے غیرملکی طلباء کی ویزا فیس 710 آسٹریلوی ڈالر سے بڑھا کر 1600 آسٹریلوی ڈالر کردی گئی ہے۔ اس طرح فیس میں 1068 آسٹریلوی ڈالر کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیٹر ویزا اور عارضی گریجوایٹ ویزا کو اسٹوڈنٹ ویزا میں تبدیل کروانے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔
وزیر داخلہ کلیئر اونیل نے ایک بیان میں کہا، “آج نافذ ہونے والی تبدیلیاں ہمارے غیرملکی تعلیمی نظام کی سالمیت کو بحال کرنے میں مدد کریں گی۔ اس طرح آسٹریلیا غیرملکی طلباء کو بہترین منصفانہ نظام فراہم کرسکے گا۔
یاد رہے کہ مارچ میں جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30 ستمبر 2023 تک امیگریشن میں 60 فیصد تک اضافہ ہوا اور تعداد 5 لاکھ 48ہزار تک بڑھ گئی۔
دوسری جانب فیسوں میں اضافے سے آسٹریلیا کے لیے اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے درخواست دینا امریکا اور کینیڈا جیسے مسابقتی ممالک کے مقابلے کہیں زیادہ مہنگا ہو گیا ہے۔ جہاں ان کی قیمت بالترتیب $185 اور C$150 ($110) ہے۔
حکومت نے کہا ہے کہ وہ ویزا کے قوانین میں خامیوں کو بھی بند کر رہی ہے جس سے غیر ملکی طلباء کو آسٹریلیا میں اپنے قیام میں مسلسل توسیع کی اجازت دی گئی، جب کہ دوسرے یا اس کے بعد کے طالب علم ویزا پر طلباء کی تعداد 2022-23 میں 30 فیصد سے بڑھ کر 150,000 سے زیادہ ہو گئی۔
حالیہ فیصلہ گزشتہ سال کے اواخر میں اسٹوڈنٹ ویزا کے قوانین کو سخت کرنے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کی ہی کڑی ہے۔ اس سے قبل سال 2022 میں کورونا کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد سالانہ امیگریشن کو ریکارڈ سطح تک بڑھایا گیا تھا۔
اسی طرح غیرملکی طلباء کیلئے انگریزی زبان کو مزید سخت کیا گیا ہے۔ جبکہ ویزاحاصل کرنے کیلئے بینک اسٹیٹمنٹ کو 7 ماہ میں دوسری مرتبہ بڑھا دیا گیا ہے۔ جو کہ پہلے 19 ہزار 823 آسٹریلوی ڈالر سے 24 ہزار 505 ڈالر کیا گیا اور پھر اسے 29 ہزار 710 ڈالر تک بڑھا دیا گیا۔
یونیورسٹیز آسٹریلیا کے سی ای او لیوک شیہی نے کہا کہ اس شعبے پر حکومت کا مسلسل پالیسی دباؤ ملک کی مضبوط پوزیشن کو خطرے میں ڈال دے گا۔
شیہی نے ای میل کے جواب میں کہا، “یہ ہماری معیشت یا ہماری یونیورسٹیوں کے لیے اچھا نہیں ہے، دونوں ہی غیرملکی طلباء کی فیسوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔”
Source link